موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے دنیا کا کویی فرد و بصر انکار نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔مولانا اشہد رسیدی
بہرائچ :(عبدلعزیز) NOI:- ہر جاندار کو موت کا زائقہ چکھنا ہے،جو انسان اس دنیا میں آیا ہے اسکو اس دنیا سے کوچ کرنا ہے،موت سے کسی کو کوئی چیز نہیں بچا سکتی،آدمی چاہے جتنے مضبوط سے مضبوط قلہ میں محفوظ ہو جائے پھر بھی وہ موت کے پہنچنے سے بچ نہیں سکتا۔
یہ بات جمیعت المآع ھند یونٹ اتر پردیش کے صدر و موہتمم مدرسہ شاہی مرادآباد حضرت مولانا اشہد رسیدی نے ضلع کے جرول قصبہ میں منقد انجمن تحفظ ناموس رسالت کے زیر اہتمام جلسہ سیرت النبی ﷺ و اصلاع معا شرہ کے عنوان سے منقد ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہے کھی۔انہوں نے آگے کھا کہ ہمارے آقا نبی کریم حضرت محمد مصتفہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ موت کو ہمیں کسرت سے یاد کرنا چاہیے،موت کو کسرت سے یاد کرنے سے انسان کو نیکیوں کی زیادہ توفیق ملتی ہے،موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے دنیا کا کوئی بھی فرد و بصر انکار نہیں کر سکتا ۔آج ہمنے اتنی سچی اور آئل حقیقت کو بھلا دیا ہے جس کی وجہ سے ہم گفلت تار ہو گیی ہے اور ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ یہ دنیا ہمارا مقام نہیں ہے۔انہوں نے مزید کھا کہ مرنے والا جنتی ہے یا دوزخی تو یہ کیسے پتہ چلے، اس بات پر انہوں نے بتایا کہ اسکی کچھ خاص علامت ہیں جس کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے کہ لوگ اگر مرنے والے کی مرنے کے بعد تعریف کرتے ہیں اور اسے اچّھے طریقہ سے یاد کرتے ہیں ہیں تو سمجھو وہ جنتی ہے اور اگر لوگ اسکی برائی کرتے ہیں اور اسکے برے کاموں سے یاد کرتے ہیں تو سمجھنا چاہیے کہ وہ سخص دوزخی ہے۔مونا رسیدی نے آگے فرمایا کہ لوگ مرنے کے بعد تعریف کریں اور اچّھا کہیں تو اسکے لئے آپ کو یہ پانچ کام کرنے پڑینگے اور وہ یہ پانچ کام ہیں جس سے لوگ مرنے کے بعد بھی آپ کو اچھای سے یاد کریں تو سب سے پہلے اپنے اوپر پانچ وقت کی نماز کو لازم کرنا ہوگا کیونکہ مرنے کے بعد اللّه تعالی تمہاری تعریف لوگوں کی زبانوں پر جاری کر دینگے دوسرا کام یہ ہے کہ اللّه کے بندوں کو اپنے ہاتھوں سے،اپنے فعل و قردار سے تقلیف نہ پہنچاؤ اور اگر آپ نے کسی کو ستایا تو مرنے کے بعد لوگ آپ کی تعریف نہیں کرینگے بلکہ تمھاری موت سے خوش ہونگے اور کہیںگے کہ بڑا ظالم تھا اچھا ہوا مر گیا۔تیسرا کام یہ ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تمھاری تعریف کریں تو بندوں کا کبھی حق نہ مارنا کیونکہ حضور نے صاف طور سے فرمایا ہے کہ اگر کوئی سخص کسی کا حق مارتا ہے اور مر جاتا ہے تو اسکا یہ اعمال معافی کا نہیں رہا اور اسے وہ سخص مرنے کے بعد اسکی برائی ہی کریگا اور لوگ اسے برائی سے ہی یاد کرینگے اور قیامت میں اللّه تعالی کہینگے کہ تونے فلاں بندے کا حق مارا ہے جاؤ اسی سے معاف کراؤ اور وہ اگر معاف کر دیتا ہے تو ٹھیک نہیں تو تیری ھلاقت ہے،میں اپنے اوپر بے ایمان ہونے کا ٹھپہ نہیں لگاینگے،لہٰذا اس دنیا میں اپنے کسی کا حق مارا ہے تو فورن جا کر اسے ادا کر دیں کیونکہ قیامت میں چاہ کر بھی اسکی ادایگی نہیں ہو پایگی اور آپ جھنمی بن جاینگے۔چوتھا کام ہے کہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کرنا،اس اعمال سے بھی انسان کی تعریف ہوتی ہے جو اسے جنتی بنا سکتی ہے اس مسلے پر ہمارے آج کے نوجوان زیادہ کوتاہی کرتے ہیں،اللّه کی نظر میں والدین کے احترام کا ایک اچھا مقام ہے جس ہماری عاقبت بنتی بگڑتی ہے اور انہوں نے بتایا کہ مرنے کے بعد انسان کا اچھے لوگوں میں یاد رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے نبی کی سنتوں کا خیان رکھنا ہے اور اس پر عمل کرتے ہوے اس زندگی کو غذارنا ہے جس سے کہ مرنے کے بعد ہمارا بھی اچھے لوگوں میں شمار ہو سکے ۔اس پروگرام بہ ضابطہ صدارت جرول قصبہ کے مدرسہ جلیلہ کے موہتمم قاری عبدا لمعید نے انجام دی جبکہ آغاز قاری محمد شکیل کی تلاوت سے کیا گیا۔نظامت کے فرایز کو مولانا محمد عمران ندوی نے نبھایا۔خصوصی طور پر اس جلسہ میں مفتی عبدالرحیم،مولانا فہیم الدین احراری وغیرہ بھی موجود رہے ۔